جس جگہ جمع ترے خاک نشیں ہوتے ہیں
غالباً سب میں نمودار ہمیں ہوتے ہیں
درد سر ان کے لئے کیوں ہے مرا عجز و نیاز
میرے سجدوں سے وہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتے ہیں
ان کی محفل سے تصور کا تعلق ہے ہمیں
آنکھ کر لیتے ہیں جب بند وہیں ہوتے ہیں
تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں ہوتے ہیں
اعتکاف ان دنوں ہے فرض سنا ہے سیمابؔ
رمضاں آ گئے مے خانہ نشیں ہوتے ہیں
غزل
جس جگہ جمع ترے خاک نشیں ہوتے ہیں
سیماب اکبرآبادی