EN हिंदी
جس جگہ آگہی مقید ہے | شیح شیری
jis jagah aagahi muqayyad hai

غزل

جس جگہ آگہی مقید ہے

احمد سجاد بابر

;

جس جگہ آگہی مقید ہے
اس جگہ زندگی مقید ہے

بجھ رہے ہیں گلاب سے چہرے
کیا یہاں تازگی مقید ہے

چاند جس کا طواف کرتا تھا
اب وہاں خاک سی مقید ہے

ایک عرضی لئے میں حاضر ہوں
منصفا روشنی مقید ہے

خاک کربل میں آج بھی لوگو
اک عجب تشنگی مقید ہے

کچے گھر کے نصیب میں بابرؔ
جا بجا خستگی مقید ہے