جس جگہ آگہی مقید ہے
اس جگہ زندگی مقید ہے
بجھ رہے ہیں گلاب سے چہرے
کیا یہاں تازگی مقید ہے
چاند جس کا طواف کرتا تھا
اب وہاں خاک سی مقید ہے
ایک عرضی لئے میں حاضر ہوں
منصفا روشنی مقید ہے
خاک کربل میں آج بھی لوگو
اک عجب تشنگی مقید ہے
کچے گھر کے نصیب میں بابرؔ
جا بجا خستگی مقید ہے
غزل
جس جگہ آگہی مقید ہے
احمد سجاد بابر