جس دن سے اٹھ کے ہم تری محفل سے آئے ہیں
لگتا ہے لاکھوں کوس کی منزل سے آئے ہیں
مل کر گلے ہم اپنے ہی قاتل سے آئے ہیں
کیا صاف بچ کے موت کی منزل سے آئے ہیں
راہیں ہیں عاشقی کی نہایت ہی پر خطر
تیرے حضور ہم بڑی مشکل سے آئے ہیں
زلفوں کے پیچ و خم میں پڑیں ہم تو کیا پڑیں
ہم تنگ خود ہی اپنے مسائل سے آئے ہیں
بزم بتاں میں شیخ سکوں کے خیال سے
دامن چھڑا کے ذکر و نوافل سے آئے ہیں
یہ حق پرستیاں مری مرہون کفر ہیں
یہ دن تو فیض صحبت باطل سے آئے ہیں
کچھ وحشیوں پہ رنگ بہاروں سے تھے علیمؔ
کچھ اہتمام طوق و سلاسل سے آئے ہیں
غزل
جس دن سے اٹھ کے ہم تری محفل سے آئے ہیں
علیم عثمانی