جس دن سے کوئی خواہش دنیا نہیں رکھتا
میں دل میں کسی بات کا کھٹکا نہیں رکھتا
مجھ میں ہے یہی عیب کہ اوروں کی طرح میں
چہرے پہ کبھی دوسرا چہرا نہیں رکھتا
کیوں قتل مجھے کر کے ڈبوتے ہو ندی میں
دو دن بھی کسی لاش کو دریا نہیں رکھتا
کیوں مجھ کو لہو دینے پہ تم لوگ بہ ضد ہو
میں سر پہ کسی شخص کا قرضا نہیں رکھتا
احباب تو احباب ہیں دشمن کے تئیں بھی
کم ظرف زمانے کا رویہ نہیں رکھتا
یہ سچ ہے کہ میں غالبؔ ثانی نہیں لیکن
یاران معاصر کا بھی لہجہ نہیں رکھتا
بادل تو فراغؔ اصل میں ہوتا ہے وہ بادل
جو پیاس کے صحرا کو بھی پیاسا نہیں رکھتا
غزل
جس دن سے کوئی خواہش دنیا نہیں رکھتا
فراغ روہوی