EN हिंदी
جس دم وہ صنم سوار ہووے | شیح شیری
jis dam wo sanam sawar howe

غزل

جس دم وہ صنم سوار ہووے

محمد رفیع سودا

;

جس دم وہ صنم سوار ہووے
تا صید حرم شکار ہووے

جو اٹھ نہ سکے تری گلی سے
رہنے دے کہ تا غبار ہووے

محکم تو رزاق بن سکے ہے
گو عمر کہ پائیدار ہووے

وہ قصر تو چاہتا نہیں میں
جس میں گل و گلعذار ہووے

وسعت مرے سینے بیچ اے دہر
ٹک دل کو شگفتہ وار ہووے

سوزن کی نہ جیب کیجو منت
یوں پھٹیو کہ تار تار ہووے

شبنم سے بھرے ہے ساغر گل
گردوں تو خراب و خوار ہووے

پانی نہیں دیتے اس کو ظالم
جو زخمیٔ بے شمار ہووے

ناصح تو قسم لے ہم سے، دل پر
اپنا کبھو اختیار ہووے

کھینچے ہے کوئی بھی تیغ پیارے
جمدھر کہ جب آب دار ہووے

کن زخموں میں زخم ہے کہ جب تک
چھاتی کے نہ وار پار ہووے

کھینچی ہے بھواں نے تیغ مکھ پر
سوداؔ سے کہو نثار ہووے

ویسے ہی کاہے یہ کام گل رو
عاشق ہی نہ گو ہزار ہووے