جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے
وہی اعتبار زمانہ تھے وہی لوگ دیدہ وروں میں تھے
ہوئے ہاتھ اب تو لہو لہو سر چشم اندھیرا ہے چار سو
کبھی ہم بھی آئنہ ساز تھے کبھی ہم بھی شیشہ گروں میں تھے
چلی شہر میں وہ ہوائے زر کہ غبار بن کے گئے بکھر
وہ جو خواب آنکھوں میں تھے مکیں وہ جنوں جو اپنے سروں میں تھے
مرے محسنوں میں ہیں شہر کے یہ طویل و آشنا راستے
کہیں اور جائے اماں نہ تھی کہ غنیم جاں تو گھروں میں تھے
وہی جن کی تیغ سے بن گیا مرا شہر مقتل خوں فشاں
سر عام دیدۂ نم لیے وہی لوگ نوحہ گروں میں تھے
اک اداس بستی میں وقت شب میں گیا تو ایسے مکاں تھے سب
نہ تو کھڑکیوں میں تھے ماہ رو نہ چراغ ان کے دروں میں تھے
سر شام دور فضاؤں میں یہ جو آئنے سے چمک اٹھے
یہی ڈھلتی دھوپ کے رنگ تھے کہ جو طائروں کے پروں میں تھے

غزل
جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے
فراست رضوی