جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
شاخ گل کیسی ہے خوشبو کے مکاں کیسے ہیں
اے صبا تو تو ادھر ہی سے گزرتی ہوگی
اس گلی میں مرے پیروں کے نشاں کیسے ہیں
پتھروں والے وہ انسان وہ بے حس در و بام
وہ مکیں کیسے ہیں شیشے کے مکاں کیسے ہیں
کہیں شبنم کے شگوفے کہیں انگاروں کے پھول
آ کے دیکھو مری یادوں کے جہاں کیسے ہیں
کوئی زنجیر نہیں لائق اظہار جنوں
اب وہ زندانئ انداز بیاں کیسے ہیں
لے کے گھر سے جو نکلتے تھے جنوں کی مشعل
اس زمانہ میں وہ صاحب نظراں کیسے ہیں
یاد جن کی ہمیں جینے بھی نہ دے گی راہیؔ
دشمن جاں وہ مسیحا نفساں کیسے ہیں
غزل
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
راہی معصوم رضا