جن لغزشوں کے دہر میں جھنڈے بلند ہیں
ایوان زندگی کے وہی نقشبند ہیں
بے سائیگی نے ہم کو بنایا ہے تیز گام
ہم لوگ سوکھے پیڑوں کے احسان مند ہیں
لفظوں کے قحط ہی کی نوازش کہیں اسے
تابوت ذہن میں جو خیالات بند ہیں
تو اپنا مال پہلے حریصوں میں بانٹ دے
کیا ہے ہمارا ہم تو قناعت پسند ہیں
اس قید ہی میں وسعت دونوں جہاں ملی
یہ سوچ کر ہی آج بھی ہم خود میں بند ہیں
غزل
جن لغزشوں کے دہر میں جھنڈے بلند ہیں
اشفاق رہبر