EN हिंदी
جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا | شیح شیری
jin KHak ke zarron par wo saya-e-mahmil tha

غزل

جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا

فانی بدایونی

;

جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
جو خاک کا ذرہ تھا وحشت کدۂ دل تھا

بیداد کی ہر تہ میں سو طرح سے شامل تھا
وہ جان کا دشمن جو کہنے کو مرا دل تھا

غم حسن مکمل تھا دل حیرت کامل تھا
تصویر کا آئینہ تصویر کے قابل تھا

ہم جی سے گزر جانا آسان سمجھتے تھے
دیکھا تو محبت میں یہ کام بھی مشکل تھا

آئینہ و دل دونوں کہنے ہی کی باتیں تھیں
تیری ہی تجلی تھی اور تو ہی مقابل تھا

ہر باطل و ہر ناحق اک راز حقیقت ہے
جس شکل میں حق آیا وابستۂ باطل تھا

ہاں آپ کسی کو یوں برباد نہیں کرتے
یہ فانیؔٔ ناکارا سچ ہے اسی قابل تھا