جن کے زیر نگیں ستارے ہیں
کچھ سنا تم نے وہ ہمارے ہیں
ان کے آنکھوں کے وہ کنارے دو
بے کرانی کے استعارے ہیں
آنسوؤں کو فضول مت سمجھو
یہ بڑے قیمتی سہارے ہیں
جو چمکتے تھے بام گردوں پر
خاک میں آج وہ ستارے ہیں
گرمی شوق نے تری آصفؔ
ان کے رخسار و لب نکھارے ہیں
غزل
جن کے زیر نگیں ستارے ہیں
آصف رضا