EN हिंदी
جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے | شیح شیری
jine wala ye samajhta nahin saudai hai

غزل

جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے

بسمل الہ آبادی

;

جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے
زندگی موت کو بھی ساتھ لگا لائی ہے

یہ بھی مشتاق ادا وہ بھی تمنائی ہے
کھنچ کے دنیا ترے کوچے میں چلی آئی ہے

کھل گئے نزع میں اسرار طلسم ہستی
زیست کہتے ہیں جسے موت کی انگڑائی ہے

کہہ گئے اہل چمن یہ ترے دیوانوں سے
ہوش میں آؤ زمانے میں بہار آئی ہے

میں کسی روز دکھاؤں دل صد چاک ادا
تجھ کو معلوم تو ہو کیا تری انگڑائی ہے

ڈھونڈھتی کیوں نہ رہے اس کو ابد تک دنیا
جس نے چھپنے کی ازل ہی میں قسم کھائی ہے

پھوٹ کر پاؤں کے چھالے مرے لائے یہ رنگ
باغ تو باغ ہے صحرا میں بہار آئی ہے

جلوۂ روز ازل نے مجھے بے چین کیا
پہلی دنیا میں یہ پہلی تری انگڑائی ہے

جس کی صحت کے لئے آپ دعائیں مانگیں
ایسے بیمار کو بھی موت کہیں آئی ہے

تیغ قاتل کو پس قتل ندامت ہوگی
دم سے بسملؔ ہی کے یہ معرکہ آرائی ہے