جینے کی خواہشوں میں کئی بار مر گئے
یوں اپنی داستان کے کردار مر گئے
کانٹے نکالنے میں ہی گزری ہے زندگی
دل میں لیے ہی حسرت گلزار مر گئے
اے زندگی یہ تیرا کرشمہ نہیں تو کیا
ہم موت سے ہی پہلے کئی بار مر گئے
موسم خزاں ہی کا تھا مگر حال یہ نہ تھا
کیسی بہار آئی کہ اشجار مر گئے
جس کی تلاش کیجیے مل جائے کیا ضرور
جینے کی جستجو میں کئی یار مر گئے
سکے کے ساتھ ساتھ جو پگڑی اچھل پڑی
جتنے بچے تھے حامل دستار مر گئے
طالبؔ ریاض فن نہ رکے ورنہ دیکھ لے
تیری طرح سے کتنے ہی فن کار مر گئے
غزل
جینے کی خواہشوں میں کئی بار مر گئے
مرلی دھر شرما طالب