EN हिंदी
جینے کی خواہشوں میں کئی بار مر گئے | شیح شیری
jine ki KHwahishon mein kai bar mar gae

غزل

جینے کی خواہشوں میں کئی بار مر گئے

مرلی دھر شرما طالب

;

جینے کی خواہشوں میں کئی بار مر گئے
یوں اپنی داستان کے کردار مر گئے

کانٹے نکالنے میں ہی گزری ہے زندگی
دل میں لیے ہی حسرت گلزار مر گئے

اے زندگی یہ تیرا کرشمہ نہیں تو کیا
ہم موت سے ہی پہلے کئی بار مر گئے

موسم خزاں ہی کا تھا مگر حال یہ نہ تھا
کیسی بہار آئی کہ اشجار مر گئے

جس کی تلاش کیجیے مل جائے کیا ضرور
جینے کی جستجو میں کئی یار مر گئے

سکے کے ساتھ ساتھ جو پگڑی اچھل پڑی
جتنے بچے تھے حامل دستار مر گئے

طالبؔ ریاض فن نہ رکے ورنہ دیکھ لے
تیری طرح سے کتنے ہی فن کار مر گئے