جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ نشے میں آؤ
ہنستے ہیں کیسے غم میں دکھاؤ نشے میں آؤ
نشہ پلا کے خوب مرا حال دل سنا
کچھ تم بھی دل کی بات بتاؤ نشے میں آؤ
تم ہوش میں جب آئے تو آفت ہی بن کے آئے
اب میرے پاس جب بھی تم آؤ نشے میں آؤ
دل میں غبار رکھنا ہے توہین مے کشی
بس ختم اٹھ کے ہاتھ ملاؤ نشے میں آؤ
یہ زندگی کی رات ہے تاریک کس قدر
دونوں سروں پہ شمع جلاؤ نشے میں آؤ
وامقؔ یہ دل کی پیاس بھلا یوں بجھے گی کیا
اب آگ ہی سے آگ بجھاؤ نشے میں آؤ
غزل
جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ نشے میں آؤ
وامق جونپوری