EN हिंदी
جینا مجھے کٹھن ہو کہ مرنا محال ہو | شیح شیری
jina mujhe kaThin ho ki marna muhaal ho

غزل

جینا مجھے کٹھن ہو کہ مرنا محال ہو

حسن سوز

;

جینا مجھے کٹھن ہو کہ مرنا محال ہو
احساس و آگہی کا مگر کیوں ملال ہو

ہر روز سوچتا ہوں نئے طور سے تمہیں
میرے لئے تم ایک انوکھا سوال ہو

تھا درد تو دلوں میں سمایا ہوا تھا میں
ہوں پاس ہی تو اب کسے میرا خیال ہو

راحت غموں کی آنچ ہو غم راحتوں کی روح
یہ زیست ہو تو میرے لئے کیوں وبال ہو

وہ کہکشاں کی سمت نہ دیکھے تو کیا کرے
جس کو تری گلی سے گزرنا محال ہو

گرتے ہوئے درخت کی بانہوں سے دور بھاگ
آغوش آفتاب میں جو کچھ بھی حال ہو

صدیوں سے کچھ وضاحتیں یوں کر رہا ہے ذہن
جیسے کہ آس پاس کی ہر شے سوال ہو

اس گھر کی چھت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے سوزؔ
ان بارشوں میں دیکھیے کیا اپنا حال ہو