جینا مرنا دونوں محال
عشق بھی ہے کیا جی کا وبال
مال و منال و جاہ و جلال
اپنی نظر میں وہم و خیال
ہم نہ سمجھ پائے اب تک
دنیا کی شطرنجی چال
کچھ تو شہ بھی تمہاری تھی
ورنہ دل کی اور یہ مجال
کس کس سے ہم نبٹیں گے
ایک ہے جان اور سو جنجال
مست کو گرنے دے ساقی
ہاں اس کے شاعر کو سنبھال
ہم اور خوف رسوائی
ناصح بھی کرتا ہے کمال
ان کی نظر سے گر گیا جب
شیشۂ دل میں آیا بال
کچھ دنیا کے کچھ دل کے
روگ لئے ہیں ہم نے پال
ساقی ساغر بھر دے جلد
ڈھال نگاہوں سے بھی ڈھال
عمر تو کیا پائی ہے مگر
گزرے ہیں کچھ ماہ و سال
سب دل کی نادانی ہے
کیسا فراق اور کس کا وصال
اپنی وفا بھی نرالی ہے
ان کی جفا بھی بے تمثال
ایک نگہ کی گردش نے
کیا کیا فتنے دئے ہیں اچھال
کیفؔ حزیں و خستہ کی یاد
ممکن ہو تو دل سے نکال
غزل
جینا مرنا دونوں محال
سرسوتی سرن کیف