جینا کیا ہے پچھلا قرض اتار رہا ہوں
میں تو اس کی باقی عمر گزار رہا ہوں
آ جائے گا چاک پہ چلنا اور سنبھلنا
ابھی تو گل سے اپنا آپ اتار رہا ہوں
کوئی کب دیوار بنا ہے میرے سفر میں
خود ہی اپنے رستے کی دیوار رہا ہوں
کھل جا مجھ پر حرف طلسم کہ تیری طرح سے
ایک زمانہ میں بھی پر اسرار رہا ہوں
تجھ کو منانا اتنا گر آسان نہیں ہے
میں بھی دل کی پہلی بازی ہار رہا ہوں
غزل
جینا کیا ہے پچھلا قرض اتار رہا ہوں
طارق نعیم