EN हिंदी
جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں | شیح شیری
jina hai sab ke sath ki insan main bhi hun

غزل

جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں

قمر اقبال

;

جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں
چہرے بدل بدل کے پریشان میں بھی ہوں

جھونکا ہوا کا چپکے سے کانوں میں کہہ گیا
اک کانپتے دیے کا نگہبان میں بھی ہوں

انکار اب تجھے بھی ہے میری شناخت سے
لیکن نہ بھول یہ تری پہچان میں بھی ہوں

آنکھوں میں منظروں کو جب آباد کر لیا
دل نے کیا یہ طنز کہ ویران میں بھی ہوں

اپنے سوا کسی سے نہیں دشمنی قمرؔ
ہر لمحہ خود سے دست و گریبان میں بھی ہوں