جینا ہے ایک شغل سو کرتے رہے ہیں ہم
ہے زندگی گواہ کہ مرتے رہے ہیں ہم
سہتے رہے ہیں ظلم ہم اہل زمین کے
الزام آسمان پہ دھرتے رہے ہیں ہم
ملتے رہے ہیں راز ہمیں اہل زہد کے
ناز اپنے شغل جام پہ کرتے رہے ہیں ہم
احباب کی نگاہ پہ چڑھتے رہے مگر
اغیار کے دلوں میں اترتے رہے ہیں ہم
جیسے کہ ان کے گھر کا پتہ جانتے نہیں
یوں ان کی رہ گزر سے گزرتے رہے ہیں ہم
کرتے رہے ہیں قوم سے ہم عشق بے پناہ
ہاں ناصحان قوم سے ڈرتے رہے ہیں ہم
شرمائیں کیوں نہ ہم سے افق کی بلندیاں
خود اپنے بال و پر کو کترتے رہے ہیں ہم
غزل
جینا ہے ایک شغل سو کرتے رہے ہیں ہم
ارشد کاکوی