جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے
کاسۂ دل لے کے پھر دریوزۂ غم کیجیے
گونجتا تھا جس سے کوہ بے ستون و دشت نجد
گوش جاں کو پھر انہیں نالوں کا محرم کیجیے
حسن بے پروا کو دے کر دعوت لطف و کرم
عشق کے زیر نگیں پھر ہر دو عالم کیجیے
دور پیشیں کی طرح پھر ڈالیے سینے میں زخم
زخم کی لذت سے پھر تیار مرہم کیجیے
صبح سے تا شام رہیے قصۂ عارض میں گم
شام سے تا صبح ذکر زلف برہم کیجیے
دن کے ہنگاموں کو کیجیے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقف ماتم کیجیے
دائمی آلام کا خوگر بنا کر روح کو
ناگہانی حادثوں کی گردنیں خم کیجیے
غیظ کی دوڑی ہوئی ہے لہر سی اصنام میں
جوشؔ اب اہل حرم سے دوستی کم کیجیے
غزل
جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے
جوشؔ ملیح آبادی