جی دارو! دوزخ کی ہوا میں کس کی محبت جلتی ہے
تیز دہکتی آگ زمیں پر خندق خندق چلتی ہے
آسیبی سی شمعیں لے کر سیاروں میں گھوم گئی
کوئی ہوا ایسی ہے کہ دنیا نیند میں اٹھ کر چلتی ہے
کہساروں کی برف پگھل کر دریاؤں میں جا نکلی
کچھ تو پاس آب رواں کر نبض جنوں کیا چلتی ہے
رات کی رات ٹھہرنے والے وقت خوش کی بات سمجھ
صبح تو اک دروازۂ غم پر دنیا آنکھیں ملتی ہے
خوش بو شہر بدی کا جادو ایک حدیث طلسم ہوئی
حوض میں کھلتا گل بکاؤلی خوش بو اس میں پلتی ہے
قندیل راہب کا جادو آسیبی تاروں کے موڑ
کاٹ کے وقت کی اک پرچھائیں خواب نما سی چلتی ہے
شمس و قمر کی خاکستر میں روح تھی اک آرائش کی
دنیا بیچ میں جا کے کھڑی ہے اور لباس بدلتی ہے
خاکستر دل کی تھی آخر ملتی راکھ میں تاروں کی
آتش مہر سا جست سا کرتی بجھتے بجھتے جلتی ہے
مطرب خوش آواز ہوئی ہے زخم آور آہنگ بلا
وہ جو مرے حصے کی لے تھی تیرے گلے میں ڈھلتی ہے

غزل
جی دارو! دوزخ کی ہوا میں کس کی محبت جلتی ہے
عزیز حامد مدنی