جگر کے خون سے روشن گو یہ چراغ رہا
مثال ماہ چمکتا تو دل کا داغ رہا
بدل گیا ہے زمانہ چلی وہ باد سموم
نہ گل رہے نہ وہ بلبل رہی نہ باغ رہا
حضور حسن سے خوشیاں نہ مل سکیں نہ سہی
متاع غم سے تو صد شکر با فراغ رہا
وہ ڈال دی غلط انداز اک نظر تو نے
کہ میں زمیں پہ رہا عرش پر دماغ رہا
نہ ہوگی بزم جہاں میں رسائی ظلمت
یہاں چراغ سے جلتا اگر چراغ رہا
کسے تھا ہوش کسی کی تلاش کا رضویؔ
تمام عمر ہی میں درپئے سراغ رہا

غزل
جگر کے خون سے روشن گو یہ چراغ رہا
سید اعجاز احمد رضوی