جدھر وہ ہیں ادھر ہم بھی اگر جائیں تو کیا ہوگا
ارادے حشر میں یہ کام کر جائیں تو کیا ہوگا
کسی نے آج تک اس کا پتہ پایا جو ہم پاتے
مکان و لا مکاں سے بھی گزر جائیں تو کیا ہوگا
یہ کلیوں کا تبسم اور یہ پھولوں کی رعنائی
بہاروں میں اگر وہ بھی سنور جائیں تو کیا ہوگا
یقیں وعدے کا ان کے خود فریبی ہی سہی لیکن
یہ دو دن بھی امیدوں میں گزر جائیں تو کیا ہوگا
غنیمت ہے وہ صبح حشر سے پہلے چلے آئے
شب آخر بھی نالے بے اثر جائیں تو کیا ہوگا
جدھر شیخ و برہمن پھر رہے تھے ڈھونڈتے رضویؔ
اسی جانب ترے شوریدہ سر جائیں تو کیا ہوگا

غزل
جدھر وہ ہیں ادھر ہم بھی اگر جائیں تو کیا ہوگا
سید اعجاز احمد رضوی