EN हिंदी
جدھر وہ ہیں ادھر ہم بھی اگر جائیں تو کیا ہوگا | شیح شیری
jidhar wo hain udhar hum bhi agar jaen to kya hoga

غزل

جدھر وہ ہیں ادھر ہم بھی اگر جائیں تو کیا ہوگا

سید اعجاز احمد رضوی

;

جدھر وہ ہیں ادھر ہم بھی اگر جائیں تو کیا ہوگا
ارادے حشر میں یہ کام کر جائیں تو کیا ہوگا

کسی نے آج تک اس کا پتہ پایا جو ہم پاتے
مکان و لا مکاں سے بھی گزر جائیں تو کیا ہوگا

یہ کلیوں کا تبسم اور یہ پھولوں کی رعنائی
بہاروں میں اگر وہ بھی سنور جائیں تو کیا ہوگا

یقیں وعدے کا ان کے خود فریبی ہی سہی لیکن
یہ دو دن بھی امیدوں میں گزر جائیں تو کیا ہوگا

غنیمت ہے وہ صبح حشر سے پہلے چلے آئے
شب آخر بھی نالے بے اثر جائیں تو کیا ہوگا

جدھر شیخ و برہمن پھر رہے تھے ڈھونڈتے رضویؔ
اسی جانب ترے شوریدہ سر جائیں تو کیا ہوگا