جدھر سے وادیٔ حیرت میں ہم گزرتے ہیں
ادھر تو اہل تمنا بھی کم گزرتے ہیں
ترے حضور جو انفاس غم گزرتے ہیں
عجب حیات کے عالم سے ہم گزرتے ہیں
رواں ہے برق کا شعلہ سحاب رحمت میں
نقاب ڈال کے اہل ستم گزرتے ہیں
حیات روک رہی ہے کوئی قدم نہ بڑھائے
کہ آج منزل ہستی سے ہم گزرتے ہیں
للک بڑھا کے فقط چند بوند برسا کے
رواں دواں سے سحاب کرم گزرتے ہیں
تعجب ان کے لیے مرگ ناگہانی کا
جو زندگی کے مراحل سے کم گزرتے ہیں
مخالفت ہے کھلی اب نہ دوستی احسنؔ
گھٹی گھٹی سی فضاؤں سے ہم گزرتے ہیں
غزل
جدھر سے وادیٔ حیرت میں ہم گزرتے ہیں
احسن رضوی داناپوری