جدھر نگاہ اٹھی کھنچ گئی نئی دیوار
طلسم ہوش ربا میں ہے زندگی کا شمار
ہر ایک سمت مسلط ہے گھور تاریکی
بجھے بجھے نظر آئے تمام شہر و دیار
یہ شہر جیسے چڑیلوں کا کوئی مسکن ہو
زبانیں گنگ ہیں ترساں ہیں کوچہ و بازار
خود اپنی ذات میں ہم اس طرح مقید ہیں
نہ دل میں تاب و تواں ہے نہ جرأت اظہار
جو اپنے سینے پہ اکثر سجا کے رکھتے ہیں
وہ تمغہ ہائے تہور تو لے گئے اغیار
کمال ناز تھا اپنی ژرف نگاہی پر
عجب کہ پڑھ نہ سکے ہم نوشتۂ دیوار
وہ مولوی کہ اصولوں کے پاسباں تھے کبھی
وہی تو بیچتے پھرتے ہیں جبہ و دستار
ورود شعر پہ حد ادب کے پہرے ہیں
جو سچ کہو گے تو ٹھہرو گے ایک دن غدار
وحیدؔ کار سیاست ہے کار بے کاراں
زباں کو روک لو قائم رہے ادب کا وقار
غزل
جدھر نگاہ اٹھی کھنچ گئی نئی دیوار
وحید قریشی