جھوٹ سچائی کا حصہ ہو گیا
اک طرح سے یہ بھی اچھا ہو گیا
اس نے اک جادو بھری تقریر کی
قوم کا نقصان پورا ہو گیا
شہر میں دو چار کمبل بانٹ کر
وہ سمجھتا ہے مسیحا ہو گیا
یہ تیری آواز نم کیوں ہو گئی
غمزدہ میں تھا تجھے کیا ہو گیا
بے وفائی آ گئی چوپال تک
گاؤں لیکن شہر جیسا ہو گیا
سچ بہت سجتا تھا میری ذات پر
آج یہ کپڑا بھی چھوٹا ہو گیا
غزل
جھوٹ سچائی کا حصہ ہو گیا
شکیل جمالی