جھوٹ کہوں تو دل تیار نہیں ہوتا
سچ سے لیکن بیڑا پار نہیں ہوتا
آپ نفع میں خوش ہیں ہم گھاٹے میں خوش
رشتوں کا ہم سے بیوپار نہیں ہوتا
رام کی شبری جنگل میں تو رہتی ہے
بیروں پر اس کا ادھیکار نہیں ہوتا
سب کیول اپنی کمزوری جیتے ہیں
رشتہ تو کوئی بیمار نہیں ہوتا
سننا سہنا چپ رہنا پھر ہنسنا بھی
خود پہ اتنا اتیاچار نہیں ہوتا
خود سے ڈرنا کشتی پہ بھی شک کرنا
اب ایسے تو دریا پار نہیں ہوتا
یہ سچ ہے وہ ہر ہفتے ہی آتا ہے
سب کی قسمت میں اتوار نہیں ہوتا
سیدھے سچے اچھے بھی ہیں لوگ بہت
کیسے لکھ دوں دو دو چار نہیں ہوتا

غزل
جھوٹ کہوں تو دل تیار نہیں ہوتا
پرتاپ سوم ونشی