جھوٹ ہونٹوں پہ بلا خوف و خطر آیا ہے
مدتوں شہر میں رہ کر یہ ہنر آیا ہے
سنگ بازوں کو خدا جانے خبر کیسے ہوئی
ایک دیوانہ سر راہ گزر آیا ہے
جب بھی ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح مرنے لگا
کام اسی وقت مرا عزم سفر آیا ہے
میں بھی چوکس تھا ہر اک وار سے پہلے اس کے
جس طرف سے بھی وہ آیا ہے نظر آیا ہے
شہر سے لوٹ تو آیا ہے مگر لگتا ہے
تیرا خالدؔ کسی طوفاں سے گزر آیا ہے

غزل
جھوٹ ہونٹوں پہ بلا خوف و خطر آیا ہے
خالد خواجہ