جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
یاد کیا کیا تری مستانہ ادا آئی ہے
ایسے نازک کبھی پابند حنا ہوتے ہیں
ہاتھ دھو ڈالے ہیں رنگت جو ذرا آئی ہے
تم بھی رخسار پہ زلفوں کو ذرا بکھرا دو
کالی کالی سر گلزار گھٹا آئی ہے
حسن اخلاق بھی ہے حسن جوانی کی طرح
جھک گئی ہیں تری آنکھیں جو حیا آئی ہے
ہائے وہ کھول کے جوڑا یہ کسی کا کہنا
آئیے سو رہیں اب رات سوا آئی ہے
سچ ہے تم نے جو لگایا نہیں منہ غنچوں کو
انہیں پھر کس کے تبسم کی ادا آئی ہے
کس کا دل خون نہیں ہے چمن عالم میں
پتی پتی سے ہمیں بوئے وفا آئی ہے
رات بھر گریۂ شبنم سے جو غنچے تھے اداس
صبح ہوتے ہی ہنسانے کو صبا آئی ہے
شعر خوانی پہ تری سب کو گماں ہے کہ جلیلؔ
بزم میں روح امیر الشعرا آئی ہے
غزل
جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
جلیلؔ مانک پوری