جھکے ہوئے پیڑوں کے تنوں پر چھاپ ہے چنچل دھارے کی
ہولے ہولے ڈول رہی ہے گھاس ندی کے کنارے کی
کسی ہوئی مردنگ سا پانی ہوا کی تھاپ سے بجتا ہے
لہر ترنگ سے اٹھتی ہے جھنکار کسی اکتارے کی
کھلی فضا میں نکلے تو زنگ یکسانی دور ہوا
ایک ہوا کے جھونکے نے رنگت بدلی انگارے کی
ابر کی تہہ میں بجلی چمکی اس کا تبسم تھا مگر اور
لفظوں میں پہچان نہ پائے تھی جو بات اشارے کی
دیکھ رہا ہوں بند خدا کی مٹھی ہونے والی ہے
صبح کے موتی پر اب بھی ہے دھیمی آنچ ستارے کی
سخت چٹانیں شیشہ پانی گل بوٹے سب ضائع تھے
سنگ و شجر کو معنی دے گئی تان کسی بنجارے کی
غزل
جھکے ہوئے پیڑوں کے تنوں پر چھاپ ہے چنچل دھارے کی
زیب غوری