جھکا کے سر کو چلنا جس جگہ کا قاعدہ تھا
مرے سر کی بلندی سے وہاں محشر بپا تھا
قصور بے خودی میں جس کو سولی دی گئی ہے
ہمارے ہی قبیلے کا وہ تنہا سرپھرا تھا
اسے جس شب مدھر آواز میں گانا تھا لازم
روایت ہے کہ اس شب بھی پرندہ چپ رہا تھا
فرشتے دم بخود خائف سراسیمہ فضا تھی
ہجوم گمرہاں تھا اور خدا کا سامنا تھا
مسافر جس کے رکنے کی توقع تھی زیادہ
نہ جانے کیوں بہت جلدی سفر پر چل دیا تھا
غزل
جھکا کے سر کو چلنا جس جگہ کا قاعدہ تھا
سراج اجملی