EN हिंदी
جھونکا نفس کا موجۂ صرصر لگا مجھے | شیح شیری
jhonka nafas ka mauja-e-sarsar laga mujhe

غزل

جھونکا نفس کا موجۂ صرصر لگا مجھے

صدیق افغانی

;

جھونکا نفس کا موجۂ صرصر لگا مجھے
رات آ گئی تو خود سے بڑا ڈر لگا مجھے

اتنا گداز ہے مرا دل فرط درد سے
پھینکا کسی نے پھول تو پتھر لگا مجھے

خود ہی ابھر کے ڈوب گیا اپنی ذات میں
سورج اک اضطراب کا پیکر لگا مجھے

یہ شام وعدہ ہے کہ پڑاؤ ہے وقت کا
اک لمحہ اک صدی کے برابر لگا مجھے

جیسے میں تیری ذات کا عکس جمیل ہوں
یوں بھی ترے فراق میں اکثر لگا مجھے

اس شور میں محال تھا تیرا خیال بھی
صحرا بھی تیرے شہر سے بہتر لگا مجھے

دامن سے دھو رہا تھا میں دھبے گناہ کے
قطرہ بھی آنسوؤں کا سمندر لگا مجھے

تازہ ہوا میں سکھ کا کوئی سانس لے سکوں
اے رب کائنات ذرا پر لگا مجھے