جھلمل سے کیا ربط نکالیں کشتی کی تقدیروں کا
تارے کشف نہیں کر سکتے بے آواز جزیروں کا
ہر ناکامی نے ایسے بھی کچھ دیواریں کھینچی ہیں
اک بے نقشہ شہر بنا ہے لا حاصل تدبیروں کا
اک مدت سے قریۂ جاں میں جھڑتے ہیں جھنکار کے پھول
جیسے میرے جسم کے اندر موسم ہو زنجیروں کا
دور سے جھنڈ پرندوں کا لگتے ہیں خیمے والوں کو
کس انداز کا آنا ہے یہ آگ چھڑکتے تیروں کا
رات گئے جب تارے بھی کچھ بے معنی سے لگتے ہیں
ایک دبستاں کھلتا ہے ان آنکھوں کی تفسیروں کا
ایک ہتھیلی پر اس نے مہکائے حنا کی سندر پھول
ایک ہتھیلی کی قسمت میں لکھا دشت لکیروں کا
غزل
جھلمل سے کیا ربط نکالیں کشتی کی تقدیروں کا
عباس تابش