جھجک رہا ہوں اسے آشکار کرتے ہوئے
جو کشمکش تھی ترا انتظار کرتے ہوئے
کٹیلی دھوپ کی شدت کو بھی نظر میں رکھو
کسی درخت کو بے برگ و بار کرتے ہوئے
ہوا کے پاؤں بھی شل ہو کے رہ گئے اکثر
ترے نگر کی فصیلوں کو پار کرتے ہوئے
یہی ہوا کہ سمندر کو پی کے بیٹھ گئی
ہماری ناؤ سفر اختیار کرتے ہوئے
کہاں وہ ذات کہ جس کو سکون ملتا تھا
تمام راحتیں ہم پر نثار کرتے ہوئے

غزل
جھجک رہا ہوں اسے آشکار کرتے ہوئے
سلطان نظامی