جھگڑے اپنے بھی ہوں جب چاک گریبانوں کے
کام ہوتے ہوئے رہ جاتے ہیں ویرانوں کے
جیسے آنکھوں کے یہ دو تل ہوں جو تبدیل نہ ہوں
غول آتے ہوئے جاتے ہوئے انسانوں کے
لوگ ہی لوگ اڑے جاتے ہیں گلیوں گلیوں
ہم نے کچھ نقشے اچھالے تھے بیابانوں کے
آسماں گرتا ہوا صاف نظر آتا ہے
بالا خانوں میں یہ در کھلتے ہیں تہہ خانوں کے
بات کی اور پھر اس بات کا مطلب پوچھا
دن برے بھی بڑے اچھے رہے دیوانوں کے

غزل
جھگڑے اپنے بھی ہوں جب چاک گریبانوں کے
شاہین عباس