EN हिंदी
جذبوں کو زبان دے رہا ہوں | شیح شیری
jazbon ko zaban de raha hun

غزل

جذبوں کو زبان دے رہا ہوں

ماجد صدیقی

;

جذبوں کو زبان دے رہا ہوں
میں وقت کو دان دے رہا ہوں

موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا
ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں

یوں ہے نم خاک بن کے جیسے
فصلوں کو اٹھان دے رہا ہوں

جو جو بھی خمیدہ سر ہیں ان کے
ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں

کیسی حد جبر ہے یہ جس پر
بے وقت اذان دے رہا ہوں

اوقات مری یہی ہے ماجدؔ
ہاری ہوئی لگان دے رہا ہوں