جذبوں کو زبان دے رہا ہوں
میں وقت کو دان دے رہا ہوں
موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا
ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں
یوں ہے نم خاک بن کے جیسے
فصلوں کو اٹھان دے رہا ہوں
جو جو بھی خمیدہ سر ہیں ان کے
ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں
کیسی حد جبر ہے یہ جس پر
بے وقت اذان دے رہا ہوں
اوقات مری یہی ہے ماجدؔ
ہاری ہوئی لگان دے رہا ہوں

غزل
جذبوں کو زبان دے رہا ہوں
ماجد صدیقی