جذبات تیز رو ہیں کہ چشمے ابل پڑے
جب درد تھم سکا نہ تو آنسو نکل پڑے
دیوانے سے نہ کیجیئے دیوانگی کی بات
کیا جانے کیا زبان سے اس کی نکل پڑے
اے دل مزا تو جب ہے کہ ہر زخم کھا کے بھی
پیشانیٔ حیات پہ ہرگز نہ بل پڑے
تھیں رہ گزار زیست میں دشواریاں مگر
ہم رہروان شوق تھے گر کر سنبھل پڑے
حامدؔ ہم اپنی منزل گم نام کیا کہیں
اٹھے جدھر بھی پاؤں اسی سمت چل پڑے

غزل
جذبات تیز رو ہیں کہ چشمے ابل پڑے
حامد الہ آبادی