جذبۂ شوق کو اس طور ابھارا جائے
ہم جدھر جائیں ادھر ان کا نظارا جائے
آپسی رشتوں کی خوشبو کو کوئی نام نہ دو
اس تقدس کو نہ کاغذ پر اتارا جائے
سیکڑوں نام ترے اور ہیں بے نام بھی تو
کون سے نام سے اب تجھ کو پکارا جائے
رقص کرتی ہے لہکتی ہے عجب مستی میں
کشتئ دل کے بھنور میں جو اتارا جائے
میری غیرت کو کسی طور گوارا ہی نہیں
تنگ دستی میں بھی ہاتھ اپنا پسارا جائے
دل کے سوئے ہوئے ارمانوں نے انگڑائی لی
زندگی آ تجھے شیشے میں اتارا جائے
صبح روشن کو تو آنا ہے وہ آئے گی ضرور
اس بھروسے پہ شب غم کو گزارا جائے
آئنہ دیکھ کے ناحق یہ بگڑنا کیسا
گرد آئینے پہ ہے اس کو اتارا جائے
اپنے پرکھوں کی عنایات کی تعظیم کرو
یہ ہے وہ قرض جو صدیوں نہ اتارا جائے
آج کے دور میں واجب ہے یہی چاندؔ کہ ہم
ساتھ دیں اس کا جدھر وقت کا دھارا جائے
غزل
جذبۂ شوق کو اس طور ابھارا جائے
مہندر پرتاپ چاند