EN हिंदी
جواز آب و تاب اب گلاب کے لیے نہیں | شیح شیری
jawaz-e-ab-o-tab ab gulab ke liye nahin

غزل

جواز آب و تاب اب گلاب کے لیے نہیں

صہبا وحید

;

جواز آب و تاب اب گلاب کے لیے نہیں
ہماری یاد زینت کتاب کے لیے نہیں

نکل کے آسماں پہ آ سمندروں پہ نام لکھ
تو چاند ہے تو چادر حجاب کے لیے نہیں

مری امانتیں سنبھال اجال دے مرے نقوش
یہ درد اب کسی سے انتساب کے لیے نہیں

مروتوں کے زخم بھی عزیز رکھنا جان سے
سلوک دوستاں ہے یہ حساب کے لیے نہیں

لہو کا ذائقہ نہ چکھ لہو کا تجربہ نہ کر
لہو ہے اضطراب اضطراب کے لیے نہیں

مرے جنوں کو خیر و شر کے دائرے سے دور رکھ
یہ زندگی کا حسن انتخاب کے لیے نہیں

ہر ایک اجنبی سے اپنا مدعا بیاں نہ کر
نظر شناس ہے تو اجتناب کے لیے نہیں