EN हिंदी
جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے | شیح شیری
jawani zindagani hai na tum samjhe na hum samjhe

غزل

جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

صبا اکبرآبادی

;

جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

ہمارے اور تمہارے واسطے میں اک نیا پن تھا
مگر دنیا پرانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

عیاں کر دی ہر اک پر ہم نے اپنی داستان دل
یہ کس کس سے چھپانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

جہاں دو دل ملے دنیا نے کانٹے بو دئے اکثر
یہی اپنی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

محبت ہم نے تم نے ایک وقتی چیز سمجھی تھی
محبت جاودانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

گزاری ہے جوانی روٹھنے میں اور منانے میں
گھڑی بھر کی جوانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

متاع حسن و الفت پر یقیں کتنا تھا دونوں کو
یہاں ہر چیز فانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

ادائے کم نگاہی نے کیا رسوا محبت کو
یہ کس کی مہربانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے