EN हिंदी
جوانی مگر اس قدر مستیاں | شیح شیری
jawani magar is qadar mastiyan

غزل

جوانی مگر اس قدر مستیاں

مظفر علی سید

;

جوانی مگر اس قدر مستیاں
شب و روز شام و سحر مستیاں

نہ دل میں ذرا بھی ندامت ہوئی
مچاتے رہے رات بھر مستیاں

ہواؤں میں لو تھرتھراتی رہی
ادھر تھی حیا اور ادھر مستیاں

ہوس کاریوں کو مسرت نہ کہہ
محبت میں اتنی نہ کر مستیاں

جوانی گنواتے ہیں جو زہد میں
بڑھاپے میں کرتے ہیں خر مستیاں

کبھی خلوتوں میں تکلف بہم
کبھی ہیں سر رہ گزر مستیاں

بڑی مشکلوں سے شب احتیاط
جو گزری تو پچھلے پہر مستیاں

وہیں دوستی ہے جہاں عشق ہے
جدھر خواریاں ہیں ادھر مستیاں

اداؤں کو الفت سمجھتا ہے تو
نہیں اے مرے بے خبر مستیاں

ثوابوں سے ان کا سہی فاصلہ
گناہوں سے ہیں دور تر مستیاں

یہاں حکمتیں بھی اترتی رہیں
اچھلتی رہی ہیں اگر مستیاں

پیاپے ترے نام پر گردشیں
دما دم ترے نام پر مستیاں

کوئی کام سیدؔ نے چھوڑا نہیں
کمالات سیر و سفر مستیاں