جوانی کی امنگوں کا یہی انجام ہے شاید
چلے آؤ کہ وعدے کی سہانی شام ہے شاید
جو تشنہ تھا کبھی ساقی وہ تشنہ کام ہے شاید
اسی باعث تو نظم مے کدہ بدنام ہے شاید
ہنسی کے ساتھ بھی آنسو نکل آتے ہیں آنکھوں سے
خوشی تو میری قسمت میں برائے نام ہے شاید
جسے مے خوار پی کے میکدے میں رقص کرتے ہیں
تری آنکھوں کی مستی ساقیٔ گلفام ہے شاید
اڑائی شمع نے جب خاک پروانہ تو میں سمجھا
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہے شاید
جو اب تک میکشوں کے پاس مدت سے نہیں آئی
ابھی گردش میں خود ہی گردش ایام ہے شاید
میں دانستہ اب ان کے سامنے خاموش ہوں جعفرؔ
خموشی بھی مری اب مورد الزام ہے شاید

غزل
جوانی کی امنگوں کا یہی انجام ہے شاید
جعفر عباس صفوی