جواں رتوں میں لگائے ہوئے شجر اپنے
نشان ثبت رہیں گے ڈگر ڈگر اپنے
گھٹائیں ٹوٹ کے برسیں جوں ہی کھلے بادل
سکھا رہے تھے پرندے بھی بال و پر اپنے
حروف پیار کے لکھے گئے صبا پر بھی
قلم کے بل پہ ہیں چرچے نگر نگر اپنے
عجیب لوگ ہیں مسمار کر کے شہروں کو
بسا رہے ہیں خلاؤں میں جا کے گھر اپنے
ثمر کسی کا ہو شیریں کہ زہر سے کڑوا
مجھے ہیں جان سے پیارے سبھی شجر اپنے
ہمارا فن بھی سحابوں میں کھو گیا راسخؔ
فلک پہ پہنچے ہیں یاران بے ہنر اپنے
غزل
جواں رتوں میں لگائے ہوئے شجر اپنے
راسخ عرفانی