جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے
لے کر قفس کو اڑ گئے رکھا جو پر کھلے
شیشے شراب کے رہیں آٹھوں پہر کھلے
ایسا گھرے کہ پھر نہ کبھی ابر تر کھلے
کچھ تو ہمیں حقیقت شمس و قمر کھلے
کس کج کلہ کے عشق میں پھرتے ہیں سر کھلے
انصاف کو ہیں دیدۂ اہل نظر کھلے
پردہ اٹھا کہ پردۂ شمس و قمر کھلے
رنگریز کی دکاں میں بھرے ہوں ہزار رنگ
طرہ وہ ہے جو یار کی دستار پر کھلے
کیا چیز ہے عبارت رنگیں میں شرح شوق
خط کی طرح طبیعت بستہ اگر کھلے
جو چاہیں یار سے کہیں اغیار غم نہیں
خواجہ کو ہیں غلام کے عیب و ہنر کھلے
حیواں پر آدمی کو شرف نطق سے ہوا
شکر خدا کرے جو زبان بشر کھلے
یوسف کی اک دکاں میں نہ تو نے تلاش کی
بازار کون کون سے اے بے خبر کھلے
شیریں دہن سے تیرے تعجب ہے گفتگو
اعجاز ہے اگر گرہ نیشکر کھلے
کٹ جائے وہ زباں نہ ہو جس سے دعائے خیر
پھوٹے وہ آنکھ جو کہ نہ وقت سحر کھلے
کوتہ ہے اس قدر مرے قد پر ردائے عیش
ڈھانکوں جو پاؤں کو تو یقیں ہے کہ سر کھلے
قاتل جزائے خیر ملے تیری تیغ کو
زخموں کے منہ کھلے نہیں جنت کے در کھلے
فصل بہار آئی ہے چلتا ہے دور جام
مغ کی دکان شام کھلے یا سحر کھلے
پاپوش ہم نے ماری ہے دستار و تاج پر
سودائے زلف یار میں رہتے ہیں سر کھلے
کیف شراب ناب کا انجام ہو بخیر
شلوار بند ساقیٔ رشک قمر کھلے
نا خواندہ شرح شوق جلائے گئے خطوط
باندھے گئے وہ جو کہ مرے نامہ بر کھلے
چاہے صفا تو ساتھ طہارت کے ذکر کر
پرہیز کر تو تجھ کو دوا کا اثر کھلے
ہنس کر دکھائے دانت جو ہم کو تو کیا ہوا
لے لیجئے جو قیمت سلک گہر کھلے
کہتا ہوں راز عشق مگر ساتھ شرط کے
کانوں ہی تک رہے نہ زباں کو خبر کھلے
مشتاق بندشوں کے ہیں خوابوں کو چاہئے
بندھوائیں شاعروں سے جو ان کی کمر کھلے
رکتی نہ اس سے چوٹ نہ چلتی یہ قاتلا
ہاتھوں سے تیرے جوہر تیغ و سپر کھلے
مطلب نہ سر نوشت کا سمجھا تو شکر کر
دیوانہ ہو جو حال قضا و قدر کھلے
چلنا پڑے گا یار کی خدمت میں سر کے بل
سمجھے ہو کیا جو بیٹھے ہو آتشؔ کمر کھلے
غزل
جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے
حیدر علی آتش