جتن کرتا تو ہوں لیکن یہ بیماری نہیں جاتی
جو میرے خون میں شامل ہے خود داری نہیں جاتی
یہ اس کا کام ہے فرقہ پرستی چھوڑ دے کیسے
سیاست کچھ بھی کر لے اس کی مکاری نہیں جاتی
وہ بوڑھا شخص اپنی جان تک نیلام کر بیٹھا
مگر افسوس اس کے گھر کی دشواری نہیں جاتی
سلایا ہے فقط پانی پلا کر اس نے بچوں کو
ہیں آنسو خشک لیکن اس کی سسکاری نہیں جاتی
مری غم خوار یہ دنیا نہ ہو تو غم نہیں ساحلؔ
مری فطرت میں شامل ہے یہ غم خواری نہیں جاتی
غزل
جتن کرتا تو ہوں لیکن یہ بیماری نہیں جاتی
محمد علی ساحل