جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک
آج کی شب خود سے الجھیں دیر تک
ساتھیوں میں جب فراست ہی نہیں
اک پہیلی کیا بجھائیں دیر تک
گفتگو کا اک طریقہ یہ بھی ہے
آؤ ہم خاموش بیٹھیں دیر تک
یہ تمہارے ظلم کی توہین ہے
شہر میں چیخیں نہ گونجیں دیر تک
رات کی بانہیں ہمیں بھینچے رہیں
اور پھر ہم خود کو سوچیں دیر تک
ہم خود اپنے خواب کی تعبیر ہیں
آئنہ پھر کیوں نہ دیکھیں دیر تک
راہ گیروں کے لیے پھیلی رہیں
بوڑھے برگد تیری شاخیں دیر تک

غزل
جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک
اسلم حنیف