EN हिंदी
جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک | شیح شیری
jashn hum yun bhi manaen der tak

غزل

جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک

اسلم حنیف

;

جشن ہم یوں بھی منائیں دیر تک
آج کی شب خود سے الجھیں دیر تک

ساتھیوں میں جب فراست ہی نہیں
اک پہیلی کیا بجھائیں دیر تک

گفتگو کا اک طریقہ یہ بھی ہے
آؤ ہم خاموش بیٹھیں دیر تک

یہ تمہارے ظلم کی توہین ہے
شہر میں چیخیں نہ گونجیں دیر تک

رات کی بانہیں ہمیں بھینچے رہیں
اور پھر ہم خود کو سوچیں دیر تک

ہم خود اپنے خواب کی تعبیر ہیں
آئنہ پھر کیوں نہ دیکھیں دیر تک

راہ گیروں کے لیے پھیلی رہیں
بوڑھے برگد تیری شاخیں دیر تک