جنگل اگا تھا حد نظر تک صداؤں کا
دیکھا جو مڑ کے نقشہ ہی بدلا تھا گاؤں کا
جسموں کی قید توڑ کے نکلے تو شہر میں
ہونے لگا ہے ہم پہ گماں دیوتاؤں کا
اچھا ہوا تہی ہیں زر بندگی سے ہم
ہر موڑ پر ہجوم کھڑا ہے خداؤں کا
صحرا کا خار خار ہے محروم تشنگی
کتنا ستم ظریف وہ چھالا تھا پاؤں کا
سر رکھ کے ہم بھی رات کے پتھر پہ سو گئے
ہم کو بھی راس آیا نہ تیشہ وفاؤں کا
بیگانگی سے مجھ کو نہ یوں دیکھیے کہ میں
حصہ ہوں آپ ہی کے دریچے کی چھاؤں کا
دیتا ہے کون دل کے کواڑوں پہ دستکیں
یہ کون روپ دھار کے آیا ہواؤں کا
فارغؔ غبار راہ کو تحقیر سے نہ دیکھ
پیغمبر بہار ہے موسم خزاؤں کا
غزل
جنگل اگا تھا حد نظر تک صداؤں کا
فارغ بخاری