EN हिंदी
جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں | شیح شیری
jangal mein kabhi jo ghar banaun

غزل

جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں

ثروت حسین

;

جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں
اس مور کو ہم شجر بناؤں

بہتے جاتے ہیں آئینے سب
میں بھی تو کوئی بھنور بناؤں

دوری ہے بس ایک فیصلے کی
پتوار چنوں کہ پر بناؤں

بہتی ہوئی آگ سے پرندہ
بانہوں میں سمیٹ کر بناؤں

گھر سونپ دوں گرد رہ گزر کو
دہلیز کو ہم سفر بناؤں

ہو فرصت خواب جو میسر
اک اور ہی بحر و بر بناؤں