جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں
اس مور کو ہم شجر بناؤں
بہتے جاتے ہیں آئینے سب
میں بھی تو کوئی بھنور بناؤں
دوری ہے بس ایک فیصلے کی
پتوار چنوں کہ پر بناؤں
بہتی ہوئی آگ سے پرندہ
بانہوں میں سمیٹ کر بناؤں
گھر سونپ دوں گرد رہ گزر کو
دہلیز کو ہم سفر بناؤں
ہو فرصت خواب جو میسر
اک اور ہی بحر و بر بناؤں
غزل
جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں
ثروت حسین