جمال پا کے تب و تاب غم یگانہ ہوا ہے
مرے لیے یہ زر گل چراغ خانہ ہوا ہے
رم خیال حریف رم زمانہ ہوا ہے
طلوع صبح تمنا پیمبرانہ ہوا ہے
نین میں دل کی گلابی کا عکس جھوم رہا ہے
دکھوں کی دھوم ہے عالم شراب خانہ ہوا ہے
بس ایک جوت جگی ہے کہیں کوئی بھی نہیں ہے
مزاج وصل بہ ہر رنگ عارفانہ ہوا ہے
کچھ اور دھوپ مرے غم کچھ اور اشک جھما جھم
گھنا ہوا ہے یہ جنگل تو شامیانہ ہوا ہے
مرے نگار گریزاں تجھے میں کیسے بھلا دوں
کہ تو پرستش اصنام کا بہانہ ہوا ہے
جگت جگت مرے جی کو جنوں اڑائے پھرے ہے
تری طرح ترا غم آفت زمانہ ہوا ہے
یہ چھاؤں چھاؤں نہ رؤو ظہیرؔ دل کو سنبھالو
ڈھلی ہے شام مگر یوں کوئی دوانہ ہوا ہے
غزل
جمال پا کے تب و تاب غم یگانہ ہوا ہے
ظہیر فتح پوری