جلووں کا ان کے دل کو طلبگار کر دیا
اے شوق کس بلا میں گرفتار کر دیا
اک ہو گیا اضافہ مری زندگی میں اور
تم نے جو دل کو مائل آزار کر دیا
دل کی مجھے خبر ہے نہ دل کو مری خبر
ملتے ہی آنکھ کیا نگہ یار کر دیا
دل بستگی کے واسطے دل کو لگایا تھا
امید حسرتوں نے اک آزار کر دیا
رکھ لی جنوں نے بات مری ان کے سامنے
ہر آبلہ سے خار نمودار کر دیا
ہیں سختیاں بڑھی ہوئی زنداں میں آج کل
دو گام چلنا بھی مجھے دشوار کر دیا
یہ کیسا روگ دل کو لگا انتظار کا
آنکھوں کو ان کا طالب دیدار کر دیا
کس نے کرم کیا یہ مرے حال زار پر
اس بے خودیٔ عشق سے ہشیار کر دیا
میں نے چھپایا لاکھ مگر اشک غم نے آہ
اے رازؔ راز شوق کا اظہار کر دیا
غزل
جلووں کا ان کے دل کو طلبگار کر دیا
بشیر الدین راز