جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے
کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے
آج مگر اک نار کو دیکھا جانے یہ نار کہاں کی ہے
مصر کی مورت چین کی گڑیا دیوی ہندوستاں کی ہے
مکھ پر روپ سے دھوپ کا عالم بال اندھیری شب کی مثال
آنکھ نشیلی بات رسیلی چال بلا کی بانکی ہے
انشاؔ جی اسے روک کے پوچھیں تم کو تو مفت ملا ہے حسن
کس لیے پھر بازار وفا میں تم نے یہ جنس گراں کی ہے
ایک ذرا سا گوشہ دے دو اپنے پاس جہاں سے دور
اس بستی میں ہم لوگوں کو حاجت ایک مکاں کی ہے
اہل خرد تادیب کی خاطر پاتھر لے لے آ پہنچے
جب کبھی ہم نے شہر غزل میں دل کی بات بیاں کی ہے
ملکوں ملکوں شہروں شہروں جوگی بن کر گھوما کون
قریہ بہ قریہ صحرا بہ صحرا خاک یہ کس نے پھانکی ہے
ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور
کہنے کو تو شہر کراچی بستی دل زدگاں کی ہے
غزل
جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے
ابن انشا